تحریر: ڈاکٹرحفیظالحسن
آج کل ہر کسی کی زبان پر جیمز ویب ٹیلی سکوپ کا نام ہے۔ اور کیوں نہ ہو انسانی تاریخ کی سب سے مہنگی خلائی دوربین جو ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اسے خلا میں بھیجے جانے تک اس پر کل لاگت تقریباً 10 بلین امریکی ڈالرز تک آئی۔ یہ دوربین خلا میں کم سے کم پانچ سال تک کائناتی مشاہدات کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ یہ ہمیں بگ بینگ کے 10 کروڑ سال بعد سے لیکر اب تک کی کائنات کے مناظر دکھائی گی۔ جس سے ہم جان پائیں گے کہ ابتدا میں کائنات
کیسی تھی۔
کائنات کی ابتدا میں بہت زیادہ خلائی گرد اور گیسیز تھیں جو بعد میں گریویٹی کے اٹر سے اکٹھی ہو کر ستارے اور کہکشائیں بنیں۔ اس قدر خلائی گرد کی وجہ سے ابتدا میں بننے والے ستارے اور کہکشاؤں سے آنے والی روشنی جو انسانی آنکھ دیکھ سکتی تھی، اس گرد میں دب گئی۔
مگر روشنی کا ایک خاص حصہ جو انسانی آنکھ کو نظر نہیں آتا جسے انفراریڈ کہا جاتا ہے وہ البتہ اس خلائی گرد کو پار کر کے بھی ہم تک پہنچ سکتا تھا۔ اسی لئے جیمز ویب ٹیلی سکوپ کو ایسے بنایا گیا کہ یہ انفراریڈ روشنی کو دیکھ سکے۔
روشنی دراصل برقناطیسی لہر ہے۔ جس طرح پانی کی لہروں میں اُتار چڑھاؤ ہوتا ہے ایسے ہی روشنی کی لہروں میں بھی اُتار چڑھاؤ ہوتا ہے۔ کسی مسلسل لہر کے دو قریبی اُتار یا چڑھاؤ میں فاصلے کو ویوولینتھ کہتے ہیں۔ گویا ویوولینھ کی اکائی فاصلے کی اکائی ہوئی۔ چونکہ یہ فاصلہ بے حد کم ہوتا ہے۔ اسی لئے اسے نینومیٹر میں ماپا جاتا ہے۔ نینومیٹر دراصل ایک میٹر کا ایک اربواں حصہ ہوتا ہے۔ تقابل کے لئے ایک ہائیڈروجن ایٹم کا سائز 0.1 نینومیٹر ہوتا ہے۔ یعنی ایک میٹر کا 10 اربواں حصہ۔
روشنی کی لہریں مختلف ویویلنتھس کی ہو سکتی ہیں۔ روشنی کی ویوویلنتھس کی مکمل رینج کو سپیکٹرم کہا جاتا ہے۔ اس سپیکٹرم کے مختلف حصوں کی سائنس میں درجہ بندی کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر 380 سے 700 نینومیٹر کی روشنی کی ویویلنتھس کو Visible یا “ِدکھنے والا” سپیکٹرم کہا جاتا ہے کیونکہ انسانی آنکھ اسے دیکھ سکتی ہے۔
اسی طرح 650 سے 700 نینومیٹر کی ویوولینتھ کی روشنی کا رنگ انسانی آنکھ کو سرخ دکھتا ہے مگر 700 نینومیٹر سے 1 ملی میٹر کی ویوولنتھ کی روشنی کو انفراریڈ (تصویر میں Infrared ) کہا جاتا ہے۔ یہ روشنی انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ ہر وہ شے جسکا کچھ نہ کچھ درجہ حرارت ہوتا ہے اس میں سے انفراریڈ روشنی نکلتی ہے۔ اس انفراریڈ روشنی کو ماپنے کے لئے خاص طرح کے ڈیٹیکٹر بنائے جاتے ہیں جو انہیں ڈیٹیکٹ کر سکتے ہیں۔ انفراریڈ کیمرے جو رات کے وقت بھی اشیاء کو دیکھ سکتے ہیں ان میں ایسے ہی مخصوص ڈیٹیکٹر لگے ہوتے ہیں۔ کیونکہ اندھیرے میں بھی اشیاء انفراریڈ روشنی خارج کر رہی ہوتی ہیں۔
اسی لئے کائنات کی ابتدا میں بننے والے ستارے جو خلائی گرد میں پیچھے چھپے ہوئے تھے اب جیمز ویب ان سے نکلنے والی انفراریڈ روشنی کو دیکھ کر انہیں ڈھونڈ پائے گی۔
چونکہ تمام اشیا جنکا درجہ حرارت ہو انفراریڈ روشنی خارج کرتے ہیں۔ لہذا اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ جیمز ویب کے آلات سورج کی روشنی سے گرم نہ ہوں۔ اس وجہ سے اسے سورج سے 15 لاکھ کلومیٹر دور مدار میں چھوڑا گیا۔ اس طرح کہ زمین ہمیشہ اسکے اور سورج کے بیچ رہے تاکہ زمین سورج کی روشنی کے بہت بڑے حصے کو اس پر پڑنے سے روکے۔ اسکے علاوہ اسکا رخ سورج کی مخالف سمت رکھا گیا اور سورج کی روشنی سے بچنے کے لیے اس کی پچھلی طرف روشنی کو منعکس کرنے والی پانچ متواتر پرتیں چڑھائی گئی۔ ایک ٹینس فیلڈ کی سائز کی یہ پرتیں اس ٹیلی سکوپ کے آلات کو سورج سے بچاتی ہیں اور اس ٹیلیسکوپ کے اندر لگے کولنگ سسٹم اسکے مخصوص آلات کو درجہ حرارت منفی 266 ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھنڈا رکھتے ہیں ۔ یہ درجہ حرارت کس قدر کم ہے؟ اسکا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ زمین پر انٹارکٹیکا کا اوسط درجہ حرارت محض منفی 60 ڈگری ہے۔ جیمز ویب کے آلات کو اتنے کم درجہ حرارت پر رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کائنات کے کونوں سے آنی والی مدہم انفراریڈ روشنی کی پیمائش اسکے اپنے اندر آلات کے درجہ حرارت میں اضافے کیوجہ سے اُن سے نکلنے والی انفراریڈ روشنی کے باعث متاثر نہ ہو ۔ ہے ناں کمال انجنئیرنگ!!
اب سوچیں کہ اس ایک ٹیلیسکوپ کو بنانے ، اس کے اس قدر پیچیدہ مسائل کو حل کرنے اور اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی نے اس پر کام کرنے والے انسانوں کے ذہنوں کو کس قدر وسعت دی ہوگی؟ تو یہ لوگ آگے چل کر اس سے بھی بڑے دنیا کے مسائل حل کریں گے اور کائنات کو تسخیر کریں گے ؟ یا وہ جو سارا دن سیاست اور دوسری لغویات پر بحث کرتے اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے تھکتے نہیں؟
تو جنہوں نے کوشش کی اُنہوں نے پا لیا اور جو کنویں کے مینڈک رہے وقت اُنہیں پچھاڑتا ہوا آگے بڑھ گیا۔